Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام از نشال عزیز قسط نمبر10

مِس ہما کو جب سے یہ پتا چلا تھا کہ طاہر علوی کی بیٹی کو اسی عمارت کے ایک کمرے میں لاکر رکھا گیا ہے وہ تب سے بےچین تھیں اس سے ملنے کے لیے،کچھ طاہر علوی کی معلومات حاصل کرنی تھی تو کچھ اپنی چھوٹی بہن کی وجہ سے کہ وہ طاہر علوی کی قید میں تھی باقی اور معصوم لڑکیوں سمیت،انکے دل میں شدت سے خواہش ابھری تھی اس لڑکی کو ٹورچر کر کے طاہر علوی کو بھی اسی طرح تکلیف دینے کی جیسے وہ اب تک کتنے ہی گھرانوں کی لڑکیاں سمگل کر کے ان لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے، تیمور۔۔۔ تیمور کو کمرے میں آتا دیکھ انہوں نے اسے پکارا تو وہ انکی طرف متوجہ ہوا کیا میں اس لڑکی سے مِل سکتی ہوں۔۔۔۔آئی مِین کیا اس کو ریمانڈ پر رکھ کر کچھ انفورمیشن کلیکٹ کرنی ہے؟ انہوں نے تحمل اختیار کرتے ہوئے تیمور سے پوچھا جس پر وہ چند پل انہیں دیکھتا رہا۔ نو۔۔۔مِس ہما۔۔۔دراصل ابھی سر نے کوئی آرڈر نہیں دیا اور جب تک سر نہیں کہتے۔۔۔ہم کچھ نہیں کر سک۔۔۔ انکی بےچینی وہ بھی نوٹ کررہا تھا اسی لیے سچویشن سنبھالنے کے لیے بول ہی رہا تھا کہ اسکا فون رنگ کرنے لگا ہیلو سر۔۔۔ اسکی کال دیکھتے ہی تیمور نے بات ادھوری چھوڑ کر کال ریسیو کی کچھ انفورمیشن ملی؟ مخصوص سرد لہجے میں پوچھا گیا جس پر تیمور گڑبڑایا نو سر۔۔۔میں تو آپکی پرمیشن کا ویٹ کررہا تھا۔۔۔ وہ بوکھلایا تھا مطلب جب تک میں نہیں کہوں گا تب تک تم لوگ کچھ نہیں کرو گے۔۔۔۔ اس بار اس نے سختی سے کہا تو تیمور نے چہرہ بگاڑا سر۔۔۔پر۔۔۔ اب جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔۔۔سب سے پہلے تم اس لڑکی سے علوی کے پرسنل لاکر کا پوچھو گے۔۔۔۔میں پھر کال کروں تو لاکر کا پتہ معلوم ہونا چاہیے تمہیں۔۔۔۔اس دیٹ کلئیر۔۔ تیمور کی بات کاٹتے ہوئے اس نے دھیمے لہجے میں اسے ہدایات دیں جس پر تیمور کا منہ بنا پر سر۔۔۔میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ نہ بتائے تو کیا کریں۔۔۔ تیمور نے مِس ہما کا اشارہ سمجھتے ہوئے اس سے پوچھا سمپل۔۔۔ٹورچر سیل میں لے جانا۔۔۔۔اب چاہے جو بھی کرو اسکے ساتھ پر لاکر کا پتہ معلوم کرو۔۔۔ اسکی اجازت پر تیمور نے ایک نظر مِس ہما کو دیکھا جن کے چہرے پر اب پہلے کی طرح بےچینی نہیں تھی بلکہ طنزیہ مسکراہٹ تھی،صاف واضح تھا کہ وہ "Z" کی بات سن چکی ہیں۔ اوکے سر۔۔۔ اسکے حامی بھرتے ہی دوسری طرف سے کال کٹ کردی گئی میں جاؤں تیمور۔۔۔۔اب تو سر کی اجازت بھی مل چکی ہے۔۔۔ تیمور کے فون جیب میں رکھنے پر انہوں نے کہا طاہر علوی اپنا پرسنل لاکر کہاں پر رکھتا ہے۔۔۔۔یہ آج رات تک پتا کر کے بتائیں۔۔۔ وہ ہلکے لہجے میں بولا تھا جس پر مس ہما اثبات میں سر ہلا کر روم سے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو؟ ازہا نے روش سے پوچھا جس پر اس نے خالی نظروں سے ازہا کو دیکھا ان تینوں کو ہوش آئے ایک گھنٹہ ہوچکا تھا،دو لڑکیوں کا تو رو رو کر برا حال ہورہا تھا باقی لڑکیاں انہیں سنبھالنے کے ساتھ خود بھی روئے جارہی تھیں جبکہ روِش دیوار سے ٹیک لگائے جب سے خاموش بیٹھی تھی،تبھی ازہا اسکے پاس آکر بیٹھی۔ وہ۔۔۔لوگ۔۔۔جانور ہیں۔۔۔یا شاید۔۔۔جانور۔۔۔سے بھی۔۔۔بدتر۔۔۔نہیں۔۔۔۔بخشا۔۔۔تینوں نے۔۔۔نہیں بخشا۔۔۔ کچھ دیر بعد روِش رک رک کر آہستگی سے اسے بتانے لگی،بےساختہ ازہا کا دل کانپا تھا۔ میں تو انکے شر سے بچ نہیں پائی۔۔۔۔پر دعا کرتی ہوں ازہا۔۔۔۔کہ تم بچ جاؤ۔۔۔ وہ اذیت بھرے لہجے میں بول رہی تھی میرا رب مجھے ضرور ایک موقع دے گا۔۔۔ اسکی بات سے ازہا بہت بری طرح ڈری تھی تبھی خود کو دلاسہ دیتے ہوئے بولی ایک دفعہ حوس کا شکار بن کر وہ پہلے ہی بہت ٹوٹ چکی تھی،اپنی بات بول کر وہ روش کے پاس سے اٹھ کر دوسری طرف چلی گئی۔ آمین۔۔۔ روِش نے اسکی پشت دیکھ کر کہا ساتھ ہی اذیت سے آنکھیں میچ لیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی آواز کانوں میں پڑنے سے اس نے غنودگی میں ہی اپنی آنکھیں نیم وا کیں،دھندلاتی نظروں میں اسے کوئی اپنے بلکل سامنے کھڑا کسی سے بات کرتا دِکھا تھا۔ مِس ہما۔۔۔۔اسے ہوش آگیا۔۔۔ مس ہما کے ساتھ کھڑی اس لیڈی افسر نے نتاشہ کو آنکھیں کھولتے دیکھ جلدی سے کہا پپپا۔۔پانی۔۔۔ اسے حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے تبھی ہلکی آواز میں وہ بڑبڑائی جس پر مس ہما نے مقابل کھڑی لیڈی افسر کو اشارہ کیا تو وہ اثبات میں سر ہلاکر باہر گئی پھر کچھ دیر بعد آئی تو اسکے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔ اب تم جاؤ۔۔۔ اس سے گلاس لے کر انہوں نے کہا اس لیڈی افسر کے جانے کے بعد مس ہما نے نتاشہ کو دیکھا جو اب تک کچھ بڑبڑارہی تھی، پانی چاہیے۔۔۔ لہجے کو ہمدردانہ بناکر انہوں نے پوچھا تو نتاشہ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا،انکے ہاتھ میں پانی دیکھ کر اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا لو پی لو۔۔۔ وہ پانی کا گلاس آگے کیے بولیں اب نتاشہ نے بےبسی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو کہ یونہی چئیر سے ہتھکڑی کے ذریعے بندھے تھے،پھر آنسو پیتی ہوئی وہ پیاس کے باعث بہت کوشش کے بعد بمشکل آگے ہوئی اور انکے ہاتھ میں تھامے گلاس کی طرف منہ کرنے لگی مگر تبھی مس ہما نے گلاس میں بھرا پانی اسکے لبوں پر لگایا وہ ابھی پانی پیتی ہی کہ انہوں نے وہ گلاس پورا اسکے منہ پر الٹ دیا،یوں پانی نتاشہ کے منہ سمیت اسکی ناک میں بھی چلاگیا،اس نے تڑپ کر اپنا چہرہ پیچھے کیا تھا،ساتھ ہی بری طرح کھانسنے لگی،کھانستے ہوئے اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا جبکہ مس ہما اب گلاس وہیں زمین پر رکھی مطمئن سی ہوکر اسے دیکھ رہی تھیں۔ پی لیا پانی۔۔۔ انکے سوال پر نتاشہ نے سرخ ہوتی آنکھیں اٹھا کر انہیں دیکھا،اسکا دل کیا تھا چیخ چیخ کر پوچھے کہ آخر کیوں اسکے ساتھ یہ سب ہورہا تھا پر پچھلی بار کا تھپڑ سوچ کر ہی وہ چپ تھی۔ اب ایک سوال پوچھوں گی تم سے۔۔۔۔فوراً جواب دو۔۔۔ اب انہوں نے چئیر کے دونوں طرف اپنے ہاتھ رکھتے ہوئے تھوڑا جھک کر اس سے کہا مج۔۔۔مجھے۔۔۔کیوں۔۔۔لایا۔۔۔گیا ہے۔۔۔یہاں۔۔۔پلیز مجھے۔۔۔بتادیں۔۔۔ وہ بھیگی آواز میں مس ہما سے پوچھنے لگی پر اگلے ہی پل اسکا سر چکرایا جب انکا ہاتھ نتاشہ کے گال پر پڑا میری بات غور سے سنو۔۔۔۔صرف جواب دوگی اب تم۔۔۔کوئی سوال کیا تو ساتھ ہی ایک اور تھپڑ لگے گا گال پر۔۔۔۔ اسکا سرخ چہرہ اپنے ہاتھوں میں دبوچتے ہوئے انہوں نے سختی سے کہا تو نتاشہ ہچکیاں روکے اثبات میں سر ہلانے لگی، تمہارے باپ یعنی کہ طاہر علوی۔۔۔۔انکے پاس ایک لاکر ہے جس کے بارے میں انہوں نے تمہارے علاوہ اور کسی کو نہیں بتایا۔۔۔۔بتاؤ وہ لوکر کہاں ہے۔۔۔ اسے لب دبائے ہچکیاں روکنے کی کوشش کرتے دیکھ ہُما نے سنجیدگی سے پوچھا تو وہ ناسمجھی سے ہُما کو دیکھنے لگی،طاہر علوی کا وہ لاکر جسکے بارے میں انہوں نے صرف اسے بتایا تھا وہ تو اسے پتا تھا کہ کہاں پر ہے لیکن اس لاکر کے بارے میں وہ لوگ کیوں پوچھ رہے تھے یہ بات نتاشہ کو پریشان کرگئی، جلدی بتاؤ۔۔۔ اسے چپ دیکھ وہ بلند آواز میں بولیں پ۔۔۔پتا نہ۔۔۔ وہ انکار کرتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی تبھی ہما نے اسکے الفاظ مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک اور تھپڑ اسکے نرم گال پر مارا،اب کے نتاشہ اپنی آواز پر قابو نہ رکھ پائی اور چیخ کر روئی تھی،گال بری طرح جلنے لگے تھے،منہ میں اسکے خون کا ذائقہ گُھلا جبکہ ہونٹ کے کناروں پر گیلی لکیر سی محسوس ہوئی تھی۔ جھوٹ نہیں۔۔۔جلدی بتاؤ کہاں ہے لاکر۔۔۔ وہ انگلی سے وارننگ دیتے ہوئے بولی روتے روتے نتاشہ کا حال برا ہوگیا تھا وہ ہچکیوں کے زد میں پھر سر نفی میں ہلانے لگی پر اگلے ہی پل اسکی زوردار چیخ فضا میں بلند ہوئی جب ہما نے اسکے برہنہ ٹھنڈے پیر پر اپنے شوز رکھ کر ان پر دباؤ ڈالا، ویسے جتنی معصوم دکھتی ہو اتنی ہو تو نہیں۔۔۔۔اندر سے کتنی شاطر ہو مجھے سب معلوم ہے۔۔۔آخر کو اس طاہر علوی کی اکلوتی بیٹی جو ٹہری۔۔۔ ہما کو بےساختہ اپنی کم عمر چھوٹی بہن یاد آئی جو اب طاہر علوی کی قید میں تھی تبھی وہ نتاشہ کا منہ دبوچے تلخی سے بولی،جس پر وہ اذیت سے آنکھیں میچ گئی،پر جب ہما اپنے شوز کے نیچے اسکے ننگے پیر کو تقریباً کچلنے کے لیے رگڑنے لگی تب نتاشہ سے برداشت نہیں ہوپایا۔ می۔۔۔میں۔۔بتارہی ہوں۔۔۔پلیز۔۔۔میرا۔۔۔پ۔۔پیر۔۔۔آاااہ وہ سختی سے آنکھیں میچے بلند آواز میں بولی جس پر ہما نے شوز کا دباؤ اسکے پیر پر کم کیا وہ۔۔۔پاپا کا لو۔۔۔لوکر۔۔انکے۔۔۔آف۔۔۔آفس میں ہے۔۔۔ وہ ہما کو دیکھ کر بتانے لگی آفس میں کہاں؟ اس نے پھر پوچھا گیٹ کے پی۔۔۔پیچھے۔۔۔دیوار پر۔۔۔ایک بلاک وائس والپیپر لگا ہے۔۔۔۔تیسرے۔۔۔ڈیزا۔۔۔ڈیزائن والے۔۔۔بلاک کے۔۔۔پیچھے۔۔۔ پیروں پر سے ہما کے شوز ہٹے تو وہ اور جلدی جلدی بتانے لگی اسکی بتائی ہوئی جگہ پر ہما نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا پھر تمسخر سے مسکرائی بہت کرلی عیاشی۔۔۔طاہر علوی۔۔۔اب نہ عزت نیلام کی ہم نے تمہاری بھرے شہر میں۔۔۔ وہ طنزیہ انداز میں بڑبڑائی میرے پاپا۔۔۔۔عیاش نہی۔۔نہیں۔۔۔ اپنے باپ کے بارے میں ایسے لفظ سن نتاشہ نے نظریں جھکائے ہکلا کر کہنا چاہا پر پھر ایک اور بار ہما کے ہاتھ کا تھپڑ اسکے ہوش اڑاگیا،اب کی بار وہ چیخی تھی پر ساتھ ہی اپنے ہوش کھوگئی،ہما نے اسکے بےہوش وجود کو تحقیر سے دیکھا پھر ہنکارا بھرتے ہوئے وہاں سے نکل گئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو روڈ پر تیز رفتاری سے بہت سی گاڑیاں اپنے راستے پر رواں دواں تھی پر انہی کے بیچ وہ ایک کنارے پر کھڑا تھا،اسکے وجیہہ چہرے پر زمانے بھر کا کرب تھا،جو اتنی گاڑیوں کے شور پر بھی اسکے اندر خالی ہونے کا احساس دلاتا،بہت سی سوچیں اسکے دماغ میں چل رہی تھیں،پر ان سوچوں کا ارتکاز اسکے کان پر مسلسل ہوتی ہارن سے ٹوٹا،ادیان نے گردن موڑ کر دیکھا سامنے ایک کار کھڑی تھی جس میں بیٹھی یمنا اسے اشارے سے بلارہی تھی،وہ دھیمے قدم اٹھاتا ہوا اسکی کار تک گیا۔ آپ اندر آجائیں ادیان۔۔۔۔اتنی سردی میں روڈ پر یوں کھڑے رہنا صحیح نہیں۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر فکرمندی سے گویا ہوئی جب اندر ایک طوفان برپا ہوتا ہے۔۔۔تو یہ سردی بھی گرمی سی لگتی ہے۔۔۔اثر ہی نہیں ہوتی۔۔۔۔ وہ زخمی لہجے میں بولا ساتھ ہی اپنی سرخ آنکھیں پھیریں دیکھیں ادیان نتاشہ ضرور مل جائے گی۔۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔ اسکے تکلیف دہ لہجے پر یمنا نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں وہ مِل جائے گی پر پتا نہیں کیوں۔۔۔لگتا ہے جب وہ آئے گی اس وقت ادیان نیازی نہیں ہوگا۔۔۔ ادیان کے کھوئے ہوئے لہجے پر یمنا چونکی ایسی باتیں نہ کریں ادیان۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔آپ فلحال ابھی اندر آئیں۔۔۔ جلدی سے بات کو کوَر اَپ کر کے یمنا نے اسے پھر اندر بلایا میں ٹھیک ہوں یہیں۔۔۔ اسے یہ بات کہہ کر ادیان نے اپنے قدم پیچھے لیے پر ادیان آپ۔۔۔ پلیز۔۔۔میں اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ اسکا لہجہ عجیب تکلیف سے بھرا تھا کہ یمنا چاہ کر بھی اور کچھ نہ کہہ پائی تبھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کار آگے بڑھاتے وہاں سے چلی گئی،اسکی دور جاتی کار پر سے نظر ہٹاکر ادیان نے واپس روڈ پر نظر جمائی مگر تھوڑے ہی دور کھڑی ایک بلیک کلر کی کار میں اسے زین بیٹھا نظر آیا جسکی استہزیہ نظریں ادیان پر ہی تھیں،اسے دیکھ ادیان نے ناگواری سے نگاہ پھیر کر قدم دوسری طرف کر لیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدھی رات کو وہ طاہر علوی کے آفس میں آیا تھا جہاں پر اس وقت بھی کچھ گارڈز بمعہ اسلحہ مُسلط تھے پر اسے افسوس ہوا کہ ایسے گارڈز پر جو مکمل دل جمعی سے اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے تو تھے لیکن انکے پیچھے ایک مشکوک انسان اندر داخل ہوا جسکی انہیں بھنک ہی نہ پڑ پائی، "جیسا نکما مالک۔۔۔۔ویسے نوکر۔۔۔" تمسخر لہجے میں وہ بڑبڑایا پھر ایک بار اپنے چہرے پر لگائے ماسک پر ہاتھ رکھ کر جب وہ مطمئن ہوا تو اندھیرے میں ہی طاہر علوی کا آفس ڈھونڈنے لگا،نقشہ دیکھنے کے باعث اسے زیادہ پریشانی نہ ہوئی اور جلد ہی وہ اسکے آفس کا گیٹ کھولتے ہوئے اندر داخل ہوا،تیمور کے کہے کے مطابق اس نے گیٹ بند کر کے عین اسکے پیچھے دیکھا جہاں بلاک وائس والپیپر لگے تھے،وہ آہستگی سے ان پر ہاتھ پھیرنے لگا پھر بیچ والے بلاک پر ہلکا سا دباؤ ڈالا تو وہ پیچھے سرکا ساتھ ہی پورے آفس میں تیز آواز میں سائرن بجا تھا،سائرن کی آواز پر جہاں سارے گارڈز الرٹ ہوتے ہوئے ہر طرف بھاگ دوڑ رہے تھے وہی دوسری طرف وہ زہریلے انداز میں ہنسنے لگا۔ "بچوں کا کھیل کھیلتا ہے یہ علوی۔۔۔" طنزیہ مسکراہٹ لیے بولتے ہوئے اس نے جھٹکے سے وہ بلاک پکڑ کر نیچے گرایا،اندر بلکل سامنے ایک بیگ رکھا تھا،وہ بیگ اٹھاتے ہوئے ابھی "Z" مڑا ہی تھا کہ ایک گارڈ طاہر علوی کے آفس میں انٹر ہوا، گیٹ کے پیچھے سے نکل کر اس نے ایک نظر گارڈ کو دیکھا،لمحے کے ہزارویں حصّے میں جہاں گارڈ نے اپنی پسٹل لوڈ کی وہیں "Z" نے طاہر علوی کی ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ پھرتی سے اٹھاتے ہوئے اسکے سر پر دے مارا،پھر اسکے سنبھلنے سے پہلے ہی وہاں سے نکلا۔ باقی گارڈ کی نظروں سے بچتے ہوئے وہ نکلا تھا،ابھی وہ مین گیٹ سے نکل ہی رہا تھا تب ایک اور گارڈ نے پیچھے سے اسے دبوچا،اسکے ایک ہاتھ کو خود پکڑ کر "Z" نے دوسرے ہاتھ سے اپنی پینٹ کی پچھلی جیب میں رکھی کِیل نکالی پھر اس گارڈ کا وہ ہاتھ مروڑ کر آگے کرتے ہوئے کیل اسکی ایک آنکھ میں گھونپی،گارڈ کی دلخراش چیخ پر دوسرے سبھی گارڈ باہر کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ "Z" اس چیختے ہوئے گارڈ کو زمین پر پھینک کر بیگ لیے وہاں سے نکلا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کیسے ہوگئی چوری؟ دوسرے دن صبح طاہر علوی آفس میں کھڑے سبھی گارڈ سے جواب طلب کرنے کے چکر میں ان پر دھاڑ رہے تھے تب یمنا انکے آفس میں آئی ریلکس ہوجائیں۔ اس نے طاہر علوی کو اتنے غصے میں دیکھ کہا ساتھ ہی گارڈز کو اشارہ کیا جس پر وہ لوگ سر جھکائے آفس سے نکلے،اسے بھی یہ خبر ابھی ملی کہ رات کو کوئی چور طاہر علوی کے آفس میں آیا تھا پر اب وہ گمشدہ چیز کے بارے میں ان سے جاننے آئی تھی۔ کیا چوری ہوا ہے؟ اس نے طاہر علوی سے پوچھا جو اب سر پکڑے آفس میں رکھے گئے صوفے پر بیٹھے تھے۔ میری قسمت ہی ابھی خراب چل رہی ہے۔۔۔۔پہلے نتاشہ کا اغواء۔۔۔۔اور اب وہ لاکر۔۔۔۔اس بیگ میں میرا لاکر تھا۔۔۔۔اگر وہ کھول لیا گیا تو میرا پورا بزنس برباد ہو جائے گا۔۔۔۔میں بدنام ہو جاؤں گا۔۔۔۔ وہ مسلسل سر جکڑے نفی میں ہلاتے ہوئے بول رہے تھے،جبکہ یمنا بھی اب منہ پر ہاتھ رکھے انکے برابر میں بیٹھی تھی،وہ سچ ہی تو کہہ رہے تھے،اس لاکر میں ہی تو ان لوگوں کا اصلی چہرہ چھپا تھا، یہ کوئی ایجنٹ نہیں ہے۔۔۔۔ضرور کوئی اپنا ذاتی بدلہ لے رہا ہے۔۔۔۔کیونکہ ایجنٹ اتنی اندر تک تو نہیں گھس سکتے۔۔۔۔ چند پل بعد وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے کون بدلہ لے رہا ہے؟ یمنا نے انکی طرف دیکھ کر کہا کتنی ہی لِسٹ ہے ان لوگوں کی جنکی میں نے زندگیاں برباد کی ہیں۔۔۔اب ان میں سے کون ہوسکتا ہے۔۔۔۔ یمنا کو تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پر اندر ہی اندر وہ یہ سب سوچ رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سر اب اسکا پاسورڈ کیا ہوگا۔۔۔ تیمور نے بےزاریت سے پوچھا ابھی وہ اُسی عمارت میں بنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا ،بیگ کے اندر سے ایک سادہ سا لاکر نکلا تھا پر اس کو کھولنے کے لیے ایک پاسورڈ لگا تھا،تیمور اسی کے برابر میں کھڑا تھا،وہ کافی خوش تھا اپنے مِشن کی پہلی کامیابی پر لیکن اب لاکر پر پاسورڈ لگا دیکھ وہ اچھا خاصا چِڑ چکا تھا۔ یہ تو ہماری مہمان بتائیں گی۔۔۔۔ٹھیک اسی طرح جس طرح اس نے لاکر کا پتہ بتایا تھا۔۔۔۔ لبوں پر استہزیہ مسکان سجائے اس نے کہا جس پر تیمور نے اس کے چہرے پر لگے ماسک کو دیکھا آفیسر ہما کو بولو۔۔۔۔اس سے پاسورڈ پوچھے۔۔۔ مستقل لاکر کو دیکھتے ہوئے اس نے کہا اوکے سر۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ تیمور بولتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگا مگر اگلے ہی پل اسکی سرد آواز پر اپنے قدم روک گیا جی سر۔۔۔ اس نے تابعداری سے کہا وہ لڑکی اتنی آسانی سے تو پاسورڈ بتائے گی نہیں۔۔۔۔تو ایسا کرو کہ اسکے شوہر۔۔۔ادیان نیازی۔۔۔اسے بھی اٹھا لے آؤ یہاں پر۔۔۔پہلے اسکی تھوڑی خاطر توازہ کرنا پھر اس لڑکی کو سرپرائز دینا۔۔۔اگر اسے دیکھ کر بھی وہ لڑکی پاسورڈ نہ بتائے تو۔۔۔ بولتے بولتے وہ کسی گہری سوچ کے زد میں رکا تھا تو پھر سر ہم اسکے شوہر کو چھوڑ دیں گے اور اس لڑکی کو مس ہما کے حوالے کردیں گے۔۔۔۔کیونکہ مجھے یقین ہے وہ اگلواہی لیں گی پاسورڈ۔۔۔۔ تیمور اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بولا اسکے شوہر کو شوٹ کردینا۔۔۔ تیمور کی بات ان سنی کرتے ہوئے آنکھوں میں برفیلا تاثر لیے اس نے سپاٹ لہجے میں کہا جس پر تیمور کی آنکھیں ابلنے لگیں ہیییں۔۔۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا سسسر۔۔۔۔کیسے مارد۔۔۔ اسکے باقی الفاظ "Z" کی سرد آنکھیں دیکھ کر ہی گنگ ہوئے،اثبات میں سر ہلاتا ہوا وہ وہاں سے نکلا اسکے جانے کے بعد وہ آنکھیں موندے چئیر سے ٹیک لگاگیا۔ مس ہما کی جگہ وہ خود آیا تھا نتاشہ سے پاسورڈ پوچھنے،کیونکہ پہلے ہی اسکی خراب حالت دیکھ تیمور کو کہی نہ کہی کچھ عجیب لگا،اسے ڈر تھا کہ کہیں اس بار پاسورڈ پوچھنے کے چکر میں مس ہما اسے مار ہی نہ ڈالیں۔ اسکے سامنے کھڑے تیمور نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں لیے پانی کے گلاس کو دیکھا پھر اسے جو بےہوش سی چئیر پر گردن لڑھکائے پرسوں سے اسی حالت میں بھوکی پیاسی تھی،اس نے مٹھی میں تھوڑا سا پانی لے کر نتاشہ کے منہ پر ہلکے سے چھینٹے مارے جس پر وہ ہلکے سے آنکھیں میچ کر اپنا بھاری ہوتا سر تھوڑے پیچھے کر گئی،سر درد سے پھٹنے لگا تھا اسکا،پر ایک اور بار منہ پر پانی کے چھینٹے پڑنے پر نتاشہ نے بمشکل آنکھیں کھولیں،شدید پیاس کے ساتھ ساتھ اب اسے بھوک بھی لگنے لگی تھی۔ پانی۔۔۔ وہ پھر بڑبڑارئی جبکہ تیمور کچھ سوچتا ہوا اس کمرے سے نکلا پھر ایک لیڈی افسر کو پہلے اسے کھانا کھلانے کا کہا،کافی دیر بعد جب وہ لیڈی افسر نتاشہ کو کھلا پلا کر روم سے نکلی تب تیمور پھر روم میں گیا،اب وہ اسے پہلے سے کافی بہتر لگ رہی تھی۔ ہوپ سو اب آپ ٹھیک ہونگی؟ نرم لہجے پر نتاشہ نے نظر اٹھا کر دیکھا سامنے ایک جوان لڑکا چہرے پر نرم مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا اب ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دے دیں مجھے۔۔۔ وہ یونہی نرم لہجے میں نتاشہ سے بولا جس لاکر کا آپ نے ہمیں پتہ بتایا تھا۔۔۔۔اب اس لاکر کو کھلنے کے لیے اسکا پاسورڈ بتادیں۔۔۔ اسکے مسکراتے ہوئے سوال کرنے پر نتاشہ نے تنگ آکر آنکھیں بند کیں مجھے صرف لاکر کا پتا تھا۔۔۔۔اسکا پاسورڈ نہیں معلوم۔۔۔ آنکھیں بند کیے ہی اس نے کہا دیکھیں۔۔۔جھوٹ بولنے کا فائدہ تو ہونے والا نہیں الٹا آپ کو ہی ٹورچر کیا جائے گا۔۔۔۔اسی لیے کہہ رہا ہوں سیدھے طریقے سے بتادیں۔۔ نتاشہ کے جواب پر تیمور نے تحمل سے کہا کہا نا نہیں معلوم پاسورڈ۔۔۔۔اگر پتا ہوتا تو بتادیتی۔۔۔ ایک ہی جگہ پر بندھے اب وہ چڑچڑے لہجے میں گویا ہوئی پر ساتھ ہی تیمور کی مسکراہٹ بھی غائب ہوئی دیکھو لڑکی۔۔۔۔میں تم سے تمیز سے پوچھ رہا ہوں تو تمیز سے جواب دو ورنہ یقین کرو یہاں پر تم جیسے لوگوں کو جس طرح ٹوچر کر کے ہر ایک سوال پوچھا جاتا ہے وہ منظر دیکھ کر ہی تم کانپو گی۔۔۔ اب تیمور نے سنجیدگی سے کہا جس پر نتاشہ کا دل چاہا خود کو ہی مارڈالے،اسے واقعی صرف لاکر کی جگہ کا معلوم تھا،پاسورڈ کا تو کوئی علم ہی نہیں تھا اسے۔ میں سچ ہی کہہ رہی ہوں۔۔۔مجھے کوئی پاسورڈ نہیں معلوم۔۔۔۔آپ لوگوں نے کیوں قید کر رکھا ہے مجھے۔۔۔۔ بولتے ہوئے آخر میں پھر سے نتاشہ کا لہجہ بھیگا تھا غلطی کردی جو تم پر رحم کرلیا۔۔۔۔تم سے تو مس ہما ہی اگلوائیں گی۔۔۔ وہ غصے میں بولتے ہوئے وہاں سے نکلا جبکہ نتاشہ ایک بار پھر رونے لگی،اسکا دم گھٹنے لگا تھا اب اس چھوٹے سے بند کمرے میں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج پھر پولیس سٹیشن میں وہ نتاشہ کا پوچھنے گیا تھا پر پچھلے دو دنوں کی طرح واپس یونہی ناکام لوٹ رہا تھا،گاڑی کو بیچ سڑک پر روک کر ادیان گیٹ کھولتے ہوئے نکلا،پھر بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا عادت کے مطابق کھلے آسمان کو گھورنے لگا،اس حد تک کہ آنکھوں میں سرخ ڈورے واضح ہونے لگے،ایک بار پھر کئی سوچوں نے اسکے دماغ میں گھومنا شروع کیا پر اچانک ادیان کو اپنی گردن پر چبھن کا احساس ہوا،وہ ابھی ہاتھ ہی رکھتا گردن پر کہ کوئی بھاری چیز اسکے سر سے ٹکرائی،لمحوں میں ادیان نیازی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا تھا۔ تیمور نے غصے میں نتاشہ کو بول تو دیا تھا پر اب وہ مس ہما کو نتاشہ کے پیر اور چہرے کی حالت دیکھ اسکے پاس نہیں بھیجا تھا،"Z" کے کہے کے مطابق وہ ادیان کو کچھ آدمیوں کی مدد لے آیا تھا یہاں پر اور ابھی اسکی توازہ کے لیے اسے دوسرے کمرے میں بند کیا ہوا تھا۔ نتاشہ یونہی چئیر سے بندھی اپنی سوچ میں گم تھی،اسے شدت سے تین لوگ بہت یاد آرہے تھے،بچپن سے لاڈ میں رکھنے والا باپ،بہن سے بڑھ کر چاہنے والی دوست یمنا اور ہر وقت اسکا خیال رکھنے والا اسکی محبت اسکا شوہر ادیان،اسکا سوچتے ہی نتاشہ کی آنکھیں پھر بھرائی،وہ کیوں نہیں آیا تھا اب تک،کیا اسے یاد نہیں آتی تھی نتاشہ کی،یہ سوچ کر ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی،تبھی سامنے لگی سفید دیوار اچانک سے روشن ہوئی،نتاشہ کی آنکھیں بےساختہ چندھیائیں،اس نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا پر اب اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی یہ دیکھ کر کہ وہ سامنے لگی سفید دیوار اب ایک سکرین کے مانند ہوئی تھی،وہ جب سے جسے سادہ سی دیوار سمجھ رہی تھی وہ گلاس وال تھا،اب اس سکرین پر ایک کمرے کا منظر دکھا تھا،جس میں عین بیچ میں کوئی چئیر پر سر لڑھکائے بیٹھا تھا،نتاشہ نے آنکھیں چھوٹی کر کے غور سے اسے دیکھا،پر یہ کیا،یہ تو وہی تھا جسکے بارے میں وہ جب سے سوچ رہی تھی،اسکی محبت،اسکا محافظ اسکا شوہر ادیان۔۔۔ ادیان کی یہ حالت دیکھ نتاشہ کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔وہ پھٹی آنکھوں سے ادیان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔شرٹ پر جابجا خون کے دھبّے،منہ اور ناک سے نکلتا خون اور ایک آنکھ سوجی ہوئی۔۔۔وہ ادھ موا سا چئیر پر اسی طرح بندھا تھا جس طرح ان لوگوں نے نتاشہ کو باندھ رکھا تھا۔ ادیان۔۔۔ادیان۔۔۔ وہ چیختے ہوئے اسے پکارنے لگی۔۔۔آنسو اسی روانی سے آنکھوں سے نکلنے لگے۔۔۔اسکی یہ حالت نتاشہ سے دیکھی نہیں جارہی تھی۔ کیا دشمنی ہے آپ لوگوں کی۔۔۔۔کیوں قید کر رکھا ہے ہمیں۔۔۔چھوڑ دیں پلیز۔۔۔کم سے کم ادیان کو تو بخش دیں۔۔۔۔ وہ ہذیانی انداز میں چیخی،دو دنوں سے رو رو کر اب تو اسکا حلق تک خشک ہوچکا تھا۔ اسکی چیخ پر ادیان جو بےہوش چئیر سے بندھا تھا،ہوش کی دنیا میں آتے ہوئے بمشکل اپنی آنکھیں کھولنے لگا۔ نتاشہ جو مسلسل روتے ہوئے چیخ رہی تھی سکرین پر ادیان کو ہوش میں آتا دیکھ اسکی آواز بند ہوئی۔۔۔اس کی جان میں جان آئی تھی ادیان کو آنکھ کھولتا دیکھ کر ادیان۔۔ادھر دیکھیں ادیان۔۔۔ وہ اسے چیخ کر مخاطب کرنے لگی تبھی ادیان نے اپنا سر اٹھا کر سامنے بڑی سی ایل ای ڈی پر نتاشہ کو دیکھا نتاشہ۔۔۔نتاشہ تم۔۔۔تم ٹھیک تو ہو نا؟ اسکے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر بےتابی سے پوچھنے پر نتاشہ کو نئے سرے سے رونا آیا۔کس قدر چاہتا تھا وہ انسان اسے۔۔۔۔وہ آہستہ سے سر اثبات میں ہلانے لگی۔ اے۔۔۔کھول اسے۔۔۔ اب کے ادیان سامنے کھڑے افسران کو دیکھ کر غرایا جس پر وہ اسے ان سنا کیے یونہی کھڑے رہے ادیان یہ کون لوگ ہیں۔۔۔پلیز مجھے یہاں سے لے چلیں۔۔۔ وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی تبھی ایک لیڈی افسر نتاشہ کے پاس آئی اور اسکے گال پر زور دار تھپڑ لگانے لگی،نتاشہ اور تڑپ کر رودی۔ میری بیوی کو چھوڑ دو (گالی)،میں بخشونگا نہیں تم لوگوں کو ورنہ۔۔ ادیان دھاڑا تھا نتاشہ کی خراب ہوتی حالت دیکھ کر تبھی تیمور گیٹ سے انٹر ہوتے ہوئے ادیان کے پاس آیا،اسکے چہرے پر بلکل سنجیدہ تاثرات تھے،وہ نہیں کرنا چاہتا تھا یہ پر اس درندے کے حکم کے آگے وہ خود کو بےبس محسوس کر رہا تھا۔۔۔اس نے تو آج تک ایک جانور بھی نہیں مارا تھا،انسان کو مارنا تو دور لیکن اب۔۔۔۔لاچارگی سے تیمور نے اپنے ہاتھ میں تھامی پسٹل کو دیکھا پھر خون سے لت پت ادیان کو۔۔۔جو نتاشہ کو دیکھتے ہوئے ان سب پر دھاڑ رہا تھا۔ چند پل تیمور کو خود کو سنبھالنے میں لگے پھر پسٹل کا رخ ادیان کی طرف کرتے ہوئے اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔ نہیں۔۔۔نہیں پلیز ادیان کو کچھ مت کرو پلیز اسے چھوڑدو۔۔۔۔مجھے ماردو پر ادیان کو نہیں۔۔۔ تیمور کو ادیان پر پسٹل تانے دیکھ نتاشہ کلپتے ہوئے بولی وہ زنجیر میں مقید اپنے ہاتھوں کو بے بسی سے دیکھتے ہوئے ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کیے جارہی تھی۔ آخری بار پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔پاسورڈ بتادو۔۔۔ تیمور نے سرخ رنگ آنکھوں سے نتاشہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا پسٹل والا ہاتھ یونہی ادیان کی کنپٹی پر رکھا تھا۔ کونسا پاسورڈ۔۔۔مجھے سچ میں کچھ نہیں پتا آپ کیا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔ وہ اذیت سے آنکھیں میچے تڑپ کر بولی مگر اگلے ہی لمحے "ٹھاہ" کی آواز پر نتاشہ نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔۔۔ تیمور یونہی پسٹل تھامے ہاتھ ہوا میں کیے کھڑا تھا جبکہ دوسری طرف ادیان۔۔۔۔۔اسکی گردن لڑھک کر سائیڈ میں گر گئی تھی۔۔۔نتاشہ بےیقینی سے اسکے مردہ وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اسے لگا تیمور نے ادیان پر گولی نہیں چلائی بلکہ اسکا دل کچل کر رکھ دیا ہو۔۔۔وہ ساکت نظروں سے ادیان کے لڑھکے ہوئے سر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اسکا محافظ،اسکی محبت،اسکا شوہر آج ان لوگوں کی بےرحمی کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ ادیان۔۔۔۔ وہ حلق کے بل چلائی تھی،تبھی تیمور نے اسے دیکھا،پاگلوں کی طرح خود کو چھڑانے کی کوشش کیے وہ ادیان کو مسلسل پکار رہی تھی،پر سننے والا زندہ ہوتا تو جواب دیتا،نتاشہ کے دماغ میں چند دن پہلے والی وہ رات گھومی،جس میں ادیان نے اسے وہ الفاظ کہے تھے،تو کیا وہ پہلے سے جانتا تھا کہ وہ نہیں بچے گا،پر کیوں، یہ کیا کِیا تم لوگوں نے۔۔۔ادیان۔۔۔کو۔۔۔ایک پاسورڈ کے چکر میں تم کیسے کسی کی جان لے سکتے ہو۔۔۔ اسکا دماغ مکمل ماؤف ہوچکا تھا تبھی وہ ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے تیمور سے استفسار کرنے لگی جو شاید اب تک خود بےیقین کھڑا تھا کہ اس نے خود کسی انسان کی جان لی ہے۔ پاسورڈ جاننا تھا نا تو سنو۔۔۔معلوم ہے مجھے پاسورڈ۔۔۔۔بلکہ پاسورڈ ہی کیا اور بھی بہت کچھ پتا ہے پر اب میں کچھ نہیں بتاؤنگی چاہے کچھ بھی کرلو تم لوگ۔۔۔۔ ادیان نیازی کا بےجان وجود دیکھ دل میں بڑھتے شدید درد سے جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تبھی اپنی بھڑاس نکالنے کے لیے جو منہ میں آیا وہ تلخی سے بول گئی بنا یہ جانے کہ اسکے یہی الفاظ آگے جاکر اسکے لیے کیا مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments